Tabassum

Add To collaction

زندگی 💔

سچی کہانی 
عنوان 
زندگی کیا چاہتی ہے ۔؟؟

(نوٹ ۔یہ ایک سچی کہانی ہے جو کہ میری آنکھوں کے سامنے ہے۔۔ سعدیہ کی بے بسی نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔۔اس کہانی کا دوسرا پارٹ نہیں ہے بلکہ ساری کہانی ایک ہی پارٹ میں ہے) 

 سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی رات میں کچے گھر کے کمرے میں ایک ماں اپنے پانچ بچوں کو لیے گرم بستر میں دُبکی بیٹھی تھی
 اماں بھوک لگی ہے۔۔" پانچ سالہ بسمہ نے ماں کو مخاطب کیا
 تو روٹی کھا لو۔۔ "" ماں  بیزاری سے بولی 
مجھے نہیں کھانی روٹی مجھے دودھ پینا ہے ۔۔بچی ضد کرنے لگی
 میں دودھ کہاں سے لاؤں۔۔؟؟ دودھ جو ڈیرے سے آتا ہے تمہاری چچی ہڑپ کیے بیٹھی ہے ۔۔
سعدیہ بےبسی سے بولی

اماں ۔۔۔۔،ابا اور دادا چچی کو کچھ نہیں کہتے؟ سارا دن ڈیرے کا کام تم کرتی ہو اور دودھ سارا چاچی رکھ لیتی ہے اور لڑائی بھی کرتی ہے ۔"؟؟بسمہ نے  ماں کی بے بسی محسوس کرتے ہوئے پوچھا 
بچے ایسے باتیں نہیں کرتے روٹی کھاؤ اور سوجاؤ …۔ ۔۔""
اس نے بچی کو ڈانٹا کیا بتاتی کے جب سر کا سائیں ہی اس کے ساتھ نا تھا۔وہ کسی اور سے  کیا شکوہ کرتی  اور سُسر کو تو دیو رانی نے ویسے ہی اپنے قابو میں کر رکھا تھا ۔

سعدیہ کو زندگی کا فلسفہ سمجھ نہیں آیا تھا 
پندرہ سال کی تھی جب بياه کر سسرال آگئی۔اتنی چھوٹی سی عمر میں لاڈ پیار کرنے والے ماں باپ اور عزت اور محبت دینے والے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر آنا آسان نہیں تھا لیکن ماں باپ کے حکم کے آگے سر تسلیم کر دیا تھا ۔۔۔
آنکھوں میں آنے والی نئی زندگی کے خواب سجا کر روتی بلکتی سعدیہ اپنے سسرال آ گئی تھی 
سسرال میں ساس سُسر  دیور  اور ایک نند تھی سعدیہ نے اپنے نئے گھر کو قسمت کا لکھا مان کر قبول کر لیا تھا اور شادی کے کچھ ہی دنوں بعد سسرال والوں کی خدمت میں لگ گئی تھی۔۔ 
اتنی چھوٹی سی عمر میں اس کے لئے یہ سب کچھ مینیج کرنا مشکل تھا لیکن کہتے ہیں نا کے 
""جب سر پر ذمہ داری پڑتی ہے تو اچھے اچھوں کے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں""
 سعدیہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔۔سسرال والوں نے بھینیس رکھی ہوئی تھی ان کا ایک ڈیرہ تھا جہاں وہ کام کیا کرتے تھے ۔۔سعدیہ دن بھر گھر کے کام کرتی اور پھر اپنے ساس کے ساتھ مل کر ڈیرہ کے کام بھی کروایا کرتی تھی ۔۔
سارا دن گھر کے کام کر کر کے تھک جاتی لیکن تسلی کے دو لفظ بولنے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ سعدیہ کے شوہر کو پہلے دن سے ہی نہ بھائی تھی بہت کوششوں اور خدمتوںسے بھی وہ اپنے شوہر کے دل میں گھر نہ کر پائی تھی ۔۔
یہ دکھ اسکے لئے بہت بڑا تھا لیکن کس سے کہتی ۔۔؟؟شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کی ماں چل بسی بہنوں کے اپنے اپنے گھروں کے مسائل تھے کہتی بھی تو کس سے کہتی ۔۔؟؟؟ یوں اپنے تمام دکھ اور تکلیف اپنے سینے میں ہی دفن کئے زندگی کی گاڑی چلتی رہی۔
وقت گزرتا چلا گیا سعدیہ 5 بچوں کی ماں بن چکی تھی ذمہ داری کا بوجھ بڑھتا چلا گیا تھا مزید کچھ عرصہ گزرا تو ساس کا بھی انتقال ہو گیا یوں گھر اور ڈیرے کی ساری ذمہ داری سعدیہ کے ناتواں کندھوں پر آن گری ۔جسے اس نے بہت خوش اسلوبی سے نبھایا تھا
چھوٹی نند کی بھی شادی ہوگئی اس سے کچھ عرصہ بعد دیور کی شادی کا شور اٹھا سعدیہ نے بہت محبت اور جوش وخروش سے آنے والے دیورانی کے لئے شادی کی شاپنگ شروع کر دی ۔
دیورانی کے لیے ہر وہ چیز لی گئی جو اس کی شادی میں اس کے لیے نہیں لے گئی تھی شادی کا دن بھی آن پہنچا بہت دھوم دھام سے بارات لے جا کر دلہن کو  گھر لایا گیا ۔۔اگلے دن میں والیمه کا فنکشن ہوا اور پھر زندگی واپس اپنے معمول پر آنے لگی ۔
وہی گھر اور ڈیرے کا کام۔۔
 بچوں کی ذمہ داریاں ۔۔۔
شوہر کی بے رخی ۔۔
سب کچھ واپس پلٹنے لگا شوہر کی بے وفائی کا دکھ اسے اندر ہی اندر کھائے چلا جارہا تھا سوکھ کر کانٹا بن چکی تھی لیکن کسی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی چند ایک بار بات بھائیوں  تک پہنچی انہوں نے آ کر بہنوئی کو سمجھایا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔
شروع کے دن تو کافی اچھے گزرے دیورانی سعدیہ اور بچوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھتی اور بچوں کو نہلا کر کپڑے پہناتی گهر کے کاموں میں سعدیہ کا ہاتھ بٹاتی۔۔
لیکن یہ سکون وقتی تھا کچھ ہی دنوں میں دیورانی نے پر پرزے نکالنا شروع کر دیے تھے سعدیہ سے جھگڑا کرتی گھر کے کاموں سے بھی ہاتھ اٹھا لیا تھا زیادہ تر وہ اپنے میکے میں پائی جاتی جب لیکن جب بھی سسرال آتی سعدیہ کا جینا حرام کیے رکھتی۔۔
زندگی میں پہلے کیا کم پریشانی تھی جو اس  دیورانی نے بھی پریشانیوں کی لسٹ میں اضافہ کر دیا تھا ۔۔😥
 ماں باپ اور بھائیوں کی لاڈلی سب سے چھوٹی بہن ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبتی چلی جا رہی تھی  ۔۔
بچے اب بڑے ہو چکے تھے بڑا بیٹا چودہ سال کا ہوگیا تھا اور ڈیرے پر باپ کا ہاتھ بٹانے لگا تھا لیکن تپتی دوپہر میں گھر سے کھانا بنا کر ڈیرےپر لے جانا  اور ڈیرے پر جاکر آبلے تھاپنا سعدیہ کی ہی ذمہ داری تھی۔۔
 
رشتہ دار عورتوں نے سعدیہ کے شوہر کو کہا کہ
" ڈیرے کے کاموں کے لئے کوئی الگ عورت رکھ لو جو وہاں کا کام کیا کرے سعدیہ بیچاری اکیلی گھر کے کام کے ساتھ  بچوں کو بھی سنبھالتی ہے اور ڈیرے کا کام بھی کرتی ہے اکیلی جان سے اتنا کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔"""
 لیکن شوہر نے ہی ہی ہنس کر ٹال دیا 
سعدیہ نے تو کسی سے شکوہ کرنا ہی چھوڑ دیا تھا 
وہ بس صبر کا دامن تھامے اس پاک ذات سے امید لگائے بیٹھی تھی جس کا کہنا ہے
* کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے*۔
ایک دن تپتی دوپہر میں سر پر آبلے لئے سعدیہ گھر آئی تو دروازہ بند تھا لاکھ کھٹکھٹانے پر بھی دیورانی نے دروازہ نہیں کھولا ۔وہ تهكن اور گرمی سے بےحال دروازه کھٹکھٹا رہی تھی لیکن اندر پنكهے تلے آرام سے لیٹی دیورانی کے کان پر جوں تک نا رینگی  ۔
تھک ہر کر سعدیہ گرنے ہی والی تھی جب ساتھ والی نے آکر اسے سمبهالا اپنے گھر لے جا کر پانی پلایا ۔۔
کافی دیر بعد سعدیہ نے جانے کی اجازت چاہی ۔
اچھا باجی اب میں چلتی ہوں  بہت بہت شکریہ اپکا ۔۔وہ ممنو نیت سے بولی ۔
ارے شکریہ کس بات کا تم ہماری ہمسائی ہو اور پانی پلانا تو بہت بڑا ثواب ہے۔۔تم بیٹھو کھانا کھا کے جانا ۔۔
ارے نہیں باجی ۔بچوں کے آنے کا وقت ہوگیا ہے انکے لئے روٹی بنانی ہے ۔۔میں چلتی ہوں ۔۔۔"وہ فکر مندی سے بولی 
 اسے بچوں کا  فکر تھا جو اسکول سے آنے ہی والے تھے اور آتے ہی روٹی روٹی کا شور ڈال دیتے 
چلو ٹھیک ہے ۔۔۔جیسے تمہاری مرضی "
ساتھ والی نے کہا تو سعدیہ اپنے دروازے پر آگئی ۔۔4۔3۔ بار کھٹکھٹا نے پر دیورانی کو ترس آ ہی گیا تھا ۔۔ اور دروازه کھل گیا ۔۔سعدیہ خاموشی سے سیڑھیاں چرھتی ہوئی اپنے پورشن میں چلی گئی ۔۔کچھ دیر بیٹھی ہی تھی کے بچوں کے انے کا شور اٹھا ۔۔
بچوں نے بھوک لگی ہے کا شور مچانا شروع کر دیا تھا سعدیہ آپنے تھکے ہوئے وجود کو گھسیٹتے ہوئے کچن تک گئی تھی اور آٹا گوندھ کر بچوں کے لیے روٹی بنائی۔
کچن کیا تھا تپتے صحن کی ایک نکر میں چولہا رکھا تھا جس میں سعدیہ نے لکڑیاں جلا کر بچوں کے لئے روٹی بنائی تھی ۔۔ایک تو چولہے کی گرمائش اور اوپر سے آسمان بھی گویا آگ برسا رہا تھا ۔۔"
کچھ ہی دیر میں اس کا پورا جسم پسینے سے شرابور ہو چکا تھا ۔سر الگ چکرا رہا تھا بمشکل روٹیاں بنا کر وہ اندر آئی 
حماد بیٹا جاؤ چچی سے برف لے آؤ۔۔۔۔"" اس نے اپنے سب سے بڑے بیٹے کو کہا 
امی میں نہیں جا رہا چاچی برف نہیں دیتی سو طرح کی باتیں سناتی ہے""
وہ بیزاری سے بولا 
چلو ایسا کرو کسی اور کے گھر سے لے آؤ ۔"
میں کسی کے گھر نہیں جارہا صبح جن کے گھر سے برف لے آئے تھے اب وہ دوبارہ برف نہیں دیں گے لوگ باتیں بناتے ہیں کہ جب تم لوگوں کے اپنے گھر میں فریج ہے تو ہمارے گھروں میں کیوں آتے ہو **
وہ چیختے ہوئے بولا تھا 
سسر نے فریج لا کر دیا تھا لیکن دیوانی نے نہایت چالاکی سے اپنے پورشن میں فریج رکھ لیا تھا نا تو وہ بچوں کو برف دیتی تھی اور نہ ہی کوئی اور چیز رکھنے دیتی ۔۔
سعدیہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی بالآخر صبر شکر کر کے بچوں نے روٹی کے ساتھ نل کا گرم پانی پی لیا تھا۔۔

سُکھ ہی سُکھ  دوں گی 
یہ کہہ کر مُکر گئی زندگی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔//________///_______///______///______
دیوانی نے کافی دن سے گھر میں جھگڑا کھڑا کیا ہوا تھا کہ سعدیہ کو گھر سے نکال دیا جائے وہ اس گھر میں سعدیہ کو نہیں رکھنا چاہتی ۔۔
کیوں ۔۔؟؟ میں کیوں نکلو یہ میرا بھی گھر ہے میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر کہاں جاؤں ۔۔؟؟
 سعدیہ غصے سے بولی 
یہ تمہارا گھر نہیں ہے  یہ گھر میرے شوہر کی کمائی سے بنا ہے  اس نے اتنے سال بیرون ملک رہ کر اپنی کمائی سے یہ گھر بنایا ہے ۔۔۔
دیوانی سعدیہ سے بھی اونچی آواز میں بولی تھی 
تمہارے شوہر نے اگر محنت کرکے بنایا ہے تو میرے شوہر کی بھی محنت شامل ہے اس میں جو سارا دن کھیتوں پر جانوروں کی طرح کام کرتا ہے ""
سعدیہ نے احتجاج  کیا 
ہاں تو ہم کیا کریں کام کرتا ہے تو۔۔ کھاتا نہیں ہے پانچ بچے ہیں تمہارے وہ سب کہاں سے کھاتے ہیں ۔۔۔؟؟
دیکھو میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی بہتر ہوگا کہ تم یہ فضول کی ضد چھوڑ دو میں یہ گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔۔""
سعد یہ کہتی ہوئی اپنے پوشن میں چلی گئی تھی لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا تھا دیورانی نے ایک محاذ کھڑا کر دیا تھا 
نندوں نے آکر صلح صفائی کرنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن دیورانی کی ایک ہی ضد تھی کہ وہ سعدیہ کو اس گھر میں نہیں رکھنا چاہتی
سعدیہ نے چپ سادھ لی اور سارا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا تھا ۔
۔۔۔۔_________//__________//__________//

سعدیہ نے اچانک جنگلے  سے نیچے جھانکا تو دیورانی کو فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے پایا ۔
ٹھیک ہے تم لوگ رات کے وقت آ جانا ۔۔۔۔""
دیورانی کا یہ جملہ سن کر اس کے کان کھڑے ہوگئے تھے 
نہ جانے وہ کس کو بلا رہی تھی ساری رات بے چینی کے مارے اسے نیند نہ آئی 
 دو بجے کا وقت تھا جب اسے گلی میں کچھ لوگوں کا شور سنائی دیا اور ساتھ ہی فضا گولیوں کی ترتراہٹ سے گونج اٹھی ۔۔
اس نے شوہر کو ہلایا 
اٹھیں ۔۔۔۔  دیکھیں باہر کوئی ہمارے دروازے کے پاس فائرنگ کر رہا ہے۔۔
سو جاؤ کوئی نہیں ہے محلے  والے چوہدری ہیں وہ فائرنگ کر رہے ہونگے تمہیں پتہ ہے وہ اکثر ہی رات کو فائرنگ کرتے ہیں ۔۔۔۔""  
شوہر نے بیزاری سے جواب دیا اور دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹ گیا 
لیکن سعدیہ کی چھٹی حس اسے مسلسل خطرے سے آگاہ کر رہی تھی  
اچانک سے ایک گولی چلی سعدیہ کو  لگا تھا وہ گولی اس کے پاس ہی چلی ہے ۔غور کرنے پر پتہ چلا کہ گولیاں گیٹ کو ماری جا رہی ہیں بچے بھی شور کا سن کر اٹھ بیٹھے تھے اس نے تمام بچوں کو اپنے آپ میں سمیٹا ۔۔
اب تو شوہر کو بھی یقین ہوا چلا تھا کہ فائرنگ انکے دروازے پر ہو رہی ہے وہ اٹھ کر جانے ہی والا تھا جب سعدیہ نے اسے روکا
 پلیز اللہ کا واسطہ ہے آپ باہر صحن میں نہ جائیں باہر فائرنگ ہو رہی ہے کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے  ۔۔۔""
کچھ نہیں ہوگا میں دیکھ کر آتا ہوں کہ باہر کون بےغیرتی کر رہا ہے""" وہ ہاتھ چھڑواتے ہوئے بولا
نہیں پلیز آپ باہر نہیں جائیں گے ۔۔۔اس وہ اٹھ کر دروازے کے پاس کھڑی ہو گئی تھی  
شوہر بالآخر  چارپائی پر بیٹھ گیا ساری رات ایسے ہی گزر گئی ۔۔
مارے پریشانی کے سعدیہ کا پورا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا جان مٹھی میں آئی ہوئی تھی۔۔ 
 دو?%

   6
4 Comments

Simran Bhagat

09-Sep-2022 05:17 PM

بہت عمده🔥🔥

Reply

Asha Manhas

09-Sep-2022 02:56 PM

واہ واہ واہ بہت بہت خوبصورت لکھا ہے آپ نے 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

Reply

Khan

17-Aug-2022 10:46 PM

Nice

Reply